ترکیہ اور شام میں شدید زلزلے، الامان – نوائے اسلام


تحریر: سید اسد عباس

کل صبح ایک سی سی ٹی وی فوٹیج دیکھی، یہ فوٹیج ترکیہ کی کسی دکان کی تھی، جس میں دکان میں پڑی چیزیں ایک دوسرے سے ٹکرا ٹکرا کر گر رہی تھیں۔ ظاہراً یہ ویڈیو زلزلے کی تھی، تاہم اس میں حیران کن چیز یہ تھی کہ اشیاء کے ٹکرانے کا یہ سلسلہ تقریباً ایک منٹ تک جاری رہا(الامان)۔ ایک منٹ تک زمین کا شدت سے لرزنا کوئی عام بات نہیں ہے۔ انسان کی بنائی ہوئی عمارتیں خواہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہوں، ساکن زمین کے لیے پلان کی جاتی ہیں، اگر ان کو کچھ سیکنڈ کے لیے ہی جھلایا جائے تو مضبوط سے مضبوط عمارت اپنے مقام پر نہیں ٹھہر سکتی۔ ہوا بھی یہی، ترکیہ میں آنے والے 7.8 شدت کے زلزلے نے سینکڑوں عمارتیں اپنے مکینوں کے ہمراہ زمین بوس کر دیں۔

یہ زلزلہ ترکیہ کے جنوبی سرحدی علاقے گزینتیپ میں آیا، جس سے شمالی شام میں بھی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ زلزلے کے جھٹکے شام، ترکیہ، لبنان، فلسطین، عراق، ایران اور بعض یورپی ممالک میں بھی محسوس کیے گئے۔ ترکیہ میں ہی دوسرا زلزلہ 7.5 شدت کا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اس وقت تک تقریبا 120 آفٹر شاکس آچکے ہیں۔ شہروں کے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ اب تک اموات کی تعداد چار ہزار سے زیادہ بیان کی جا رہی ہے، تاہم جو تصاویر اور فوٹیجز سامنے آرہی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اموات کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی۔ دنیا بھر سے امدادی ٹیمیں اور سامان اس وقت ترکیہ اور شام کے لیے روانہ ہوچکا ہے۔ پاکستان نے بھی ریسکیو ورکرز اور امدادی سامان کی کھیپ ترکی بھیج دی ہے۔ اسی طرح ایران سے بھی امدادی سامان اور ٹیمز ترکی اور شام پہنچ رہی ہیں۔

جاپان سے بھی امدادی ٹیمیں ترکی کے لیے روانہ ہوچکی ہیں۔ آسٹریلیا نے دس کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے اور چین نے دونوں ممالک کے لیے تقریباً ساٹھ لاکھ ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔ پی آئی اے نے دمشق اور استنبول کے لیے امدادی سامان مفت لے جانے کا اعلان کیا ہے۔ ترکیہ اور شام میں اس وقت شدید سردی ہے، اکثر علاقوں میں برفباری ہو رہی ہے اور زلزلہ متاثریں جن میں بچے، بوڑھے، مرد و زن شامل ہیں، کھلے آسمان تلے رات گزارنے پر مجبور ہیں۔ دونوں ممالک کے ذمہ داران نے عالمی برادری سے مدد کی اپیل کی ہے۔

ترکیہ میں آنے والے حالیہ زلزلے دنیا کی زلزلوں کی تاریخ کے شدید ترین زلزلے ہیں۔ اسی شدت کا ایک زلزلہ نیپال میں 2015ء میں آیا، جس میں تقریباً دس ہزار افراد جاں بحق ہوئے، 2016ء میں ایکواڈور میں بھی اتنی ہی شدت کا زلزلہ آیا، جس کی گہرائی بیس کلومیٹر تھی۔ اس زلزلے میں تقریباً اٹھائیس ہزار لوگ جاں بحق ہوئے۔ 9.1 شدت کا ایک زلزلہ 2011ء میں جاپان میں آیا، جس گہرائی انتیس کلومیٹر تھی، اس زلزلے کے نتیجے میں بیس ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔ 2008ء میں چین میں 8.0 ریکٹر کا زلزلہ آیا، جس میں تقریباً اٹھاسی ہزار افراد جاں بحق ہوئے۔ 2004ء میں انڈونیشیا میں ایک زلزلہ آیا، جو سونامی کا باعث بنا۔ اس زلزلے کی شدت9.1 تھی، جس کے نتیجے میں انڈونیشیا میں اڑھائی لاکھ لوگ جاں بحق ہوئے۔

2005ء میں کشمیر پاکستان میں ایک زلزلہ آیا، جس کی شدت 7.6 تھی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں تقریباً ستاسی ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ 2001ء میں ہندوستان میں 7.1 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں تقریباً بیس ہزار سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے۔ 1985ء میں میکسیکو میں 8.0 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں ہلاکتوں کی تعداد پینتالیس ہزار کے قریب تھی۔ 1979ء میں کولمبیا میں 8.2 شدت کا ایک زلزلہ اور سونامی آیا، جس میں ہلاکتوں کی تعداد تقریباً چھے سو کے قریب تھی۔ پیرو میں 1979ء میں ایک زلزلہ آیا، جس کے نتیجے میں ستر ہزار کے قریب انسان لقمہ اجل بنے۔ 1964ء میں امریکا میں انسانی تاریخ کا شدید ترین زلزلہ 9.2 شدت کا محسوس کیا گیا، تاہم اس میں جانی نقصان نہایت کم ہوا۔

سوویت یونین میں 1952ء کا زلزلہ جو 9.0 شدت کا تھا، اس میں بیس ہزار کے قریب لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس سے کم شدت کے بہت سے زلزلے اکیسویں اور بیسویں صدی میں مختلف ممالک میں آئے، جس میں ہزاروں انسان لقمہ اجل بنے۔ لاکھوں لوگ زخمی ہوئے اور املاک کا نقصان اس پر مستزاد ہے۔ جدید آلات کی عدم دستیابی کے سبب 1900ء سے قبل رپورٹ ہونے والے زلزلوں کے بارے معلومات مکمل نہیں ہیں، تاہم ایک اندازے کے مطابق سولہویں صدی سے بیسویں صدی تک دنیا میں 8.5 شدت کے زلزلوں کی تعداد 29 ہے۔ سال 1901ء سے سال 2000ء تک 8.5 شدت کے گیارہ زلزلے آئے۔

تاریخ کا علم رکھنے والے اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ زلزلوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے، جتنی یہ دنیا۔ تاہم جیسے جیسے انسانی آبادیاں، شہری آبادیوں میں ڈھل رہی ہیں، ویسے ویسے زلزلوں کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ در ج بالا اعداد و شمار میں ہم نے دیکھا کہ دنیا کے بعض ممالک میں 9 اعشاریہ کی شدت کے زلزلوں کے باوجود اتنا نقصان نہیں ہوا، جتنا بعض کمتر شدت کے زلزلوں میں دوسرے مقام پر ہوا۔ اس تفاوت کی وجہ شہری آبادیاں اور بلند و بالا عمارتیں ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں زلزلہ سے بچنے کے لیے عمارتوں کی تعمیر کے لیے قواعد وضع کیے گئے ہیں، جن پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ سائنس دان اور ماہرین تعمیرات مسلسل ایسی کاوشوں میں لگے رہتے ہیں، جس سے زلزلے کے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکے۔ یہ اقدامات اگرچہ مکمل تحفظ نہیں فراہم کرتے، تاہم نقصان کا اندیشہ بہرحال کم ہو جاتا ہے۔

ایسے میں اگر ہم اپنے ملک میں زلزلہ سے بچاؤ کے اقدامات پر نظر دوڑائیں تو انسان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ ہم 2005ء میں ایک زلزلے کا تجربہ کرنے کے باوجود نہیں سمجھے، حالات اللہ توکل پر آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر خدانخواستہ اتنی ہی یا اس سے زیادہ شدت کا زلزلہ ہمارے خطے میں آتا ہے تو اس کا نقصان خاکم بدہن تاریخ انسانیت میں ایک نیا ریکارڈ قائم کرے گا، اس وقت ہمارا شکوہ و شکایت کرنا بے سود ہوگا، کیونکہ اللہ کا واضح فرمان ہے: “تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمھارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے۔” (الشوریٰ: ۳۰)








Source link

Related Articles

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Stay Connected

0FansLike
3,912FollowersFollow
0SubscribersSubscribe
- Advertisement -spot_img

Latest Articles