- مصنف, عزیز اللہ خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
’میری ٹانگ کاٹ دیں لیکن مجھے باہر نکالیں۔‘ پشاور کی پولیس لائن کی مسجد میں ایک زخمی شخص کی یہ فریاد سن کر ریسکیو اہلکاروں نے ڈاکٹروں کی رائے حاصل کی اور تمام تر ممکنہ اقدامات اٹھا کر بالآخر اس زخمی شخص کی ٹانگ کاٹ دی۔
مسجد کی چھت دھماکے کے بعد لگ بھگ زمین کے ساتھ مل گئی تھی۔ کچھ مقامات پر دو سے تین فٹ کی جگہ تھی جہاں ڈرل کے ذریعے سوراخ کر کے نیچے اترا تو ادھر زخمی کراہ رہے تھے لاشیں پڑی تھیں اور کچھ ایسے زخمی تھے جن کے بازو اور ٹانگیں چھت کے ملبے کے نیچے دب گئی تھیں۔
پشاور پولیس لائن میں واقع مسجد میں امدادی کارکن کوئی 26 سے 28 گھنٹے تک امدادی کام جاری رکھے ہوئے تھے ان میں ریسکیو 1122 کے یٰسین اللہ کوئی 16 گھنٹوں تک مسلسل وہاں موجود زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنے کے علاوہ لاشوں کو نکالنے میں مصروف رہے۔
یٰسین اللہ نے بی بی سی کوبتایا کہ وہ ایک مشکل وقت تھا اور اس وقت انھیں اور کچھ بھی یاد نہیں تھا نہ والدین نہ بیوی بچے اور نا ہی کوئی اور۔۔۔ اس وقت وہاں زخمیوں کو بچانا ان کا بنیادی مقصد تھا۔
اندھیرے میں لاشیں اور زخمی
دھماکے کے بعد جو امدادی کارکن پہنچے تو پہلے تو جو سامنے زخمی اور لاشیں نظر آرہی تھیں انھیں ہسپتال منتقل کیا اور جن زخمیوں کو وہیں طبی امداد کی ضرورت تھی انھیں امداد فراہم کی گئی۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ ہمیں بتایا گیا کہ چھت کے نیچے بھی لوگ ہیں کیونکہ دھماکے کے بعد مسجد کی چھت نیچے گر گئی تھی اور مسجد میں اس وقت بڑی تعداد میں نمازی موجود تھے۔
اس دوران فیصلہ ہوا کہ مشینوں کے ذریعے سے اس میں سوراخ کرکے نیچے اترنا پڑے گا اور وہاں موجود امدادی کارکنوں نے اتنی جگہ بنائی کہ ایک آدمی اتر سکتا تھا۔
ان کے مطابق ’میں جب نیچے اترا تو وہاں اندھیرا تھا ہم نے وہاں روشنی کے لیے اقدامات کیے تو وہاں زخمی تھے اور لاشیں پڑی تھیں۔ میرے ساتھ کچھ اور ساتھی بھی تھے اور ہم نے شروع میں زخمیوں کو طبی امداد فراہم کرنا شروع کر دی۔‘
ٹانگ کاٹیں یا نہیں؟
ایک شخص کی ٹانگ چھت کے نیچے آ گئی تھی۔ ہم نے بھرپور کوشش کی کہ کسی طرح ڈرل مشین کے ذریعے چھت کے اس کنکریٹ سے بنے حصے کو توڑا جائے یا کاٹ لیا جائے۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ ’ہمیں صرف تین فٹ کی جگہ میسر تھی جس میں ہم نے کام کرنا تھا، وہ زخمی شخص وہاں کراہ رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ مجھے باہر نکالو۔ ہم انھیں تسلیاں دیتے رہے۔ کنکریٹ سے بنی اس چھت کو توڑنے یا کاٹنے میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی کیونکہ ہمیں ڈرل مشین پر دباؤ ڈالنے کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔
ہم لیٹ کر یا گھٹنوں کے بل جھک کر بیٹھ جاتے اور اسے کاٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جب ہمیں یہ یقین ہوگیا کہ یہ کاٹنا مشکل ہے تو ہم نے ڈاکٹروں کو بلایا وہ بھی نیچے آئے انھوں نے زخمی کا معائنہ کیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ ٹانگ کاٹنی ہوگی کوئی اور راستہ نہیں ہے۔
اس کے بعد اس زخمی سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ آپ ٹانگ کاٹ دیں لیکن مجھے باہر نکالیں۔ اس کے بعد ان کی ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ اس زخمی کے ساتھ ایک بزرگ بھی تھے جن کی ٹانگ بھی اس بیم کے نیچے آ گئی تھی لیکن وہ صرف ایک کنارے پر تھے جبکہ زخمی بالکل بیم کے درمیان میں تھے اور اس بیم کو اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گیا تھا لیکن پھر اُنھیں بیم کا ایک کنارہ کاٹ کر نکال لیا گیا۔
امدادی کارکن وہاں کیا کرتے رہے؟
جب بڑی تعداد میں زخمی اور لاشیں چھت کے نیچے پڑی تھیں اور وہاں زیادہ لوگ اُتر بھی نہیں سکتے تھے تو اس وقت کوشش یہ کر رہے تھے کہ ان زخمیوں کا حوصلہ بڑھانا ضروری ہے کیونکہ یہ خدشہ تھا کہ زخمی حوصلہ نہ ہار جائیں۔
ان کارکنوں نے بتایا کہ جیسے جیسے زخمیوں کو کہیں ڈرپ اور انجیکشن لگائے جا رہے تھے اس وقت کچھ کارکنوں کو ان زخمیوں کے ساتھ بٹھا دیتے تاکہ ان سے بات چیت کریں اور انھیں تسلی دے سکیں۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ امدادی کارکن زخمیوں کے ساتھ ان کے گھروں اور ان کے بچوں کے بارے میں عام بات چیت کرتے رہے تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے۔
انھوں نے بتایا کہ انھوں نے ریسکیو آپریشن دھماکے کے فوری بعد شروع کر دیا گیا تھا کیونکہ اُنھیں لگ بھگ سوا ایک بجے اطلاع ملی تھی اور ہم فوری طور پر وہاں پہنچ گئے تھے اس کے بعد انھوں نے آخری زخمی کو صبح چار بجے زندہ نکال لیا تھا۔
زخمیوں کا کیسے پتہ چلا؟
اس مسجد کا جو حصہ منہدم ہوا ہے وہ بڑا ہال ہے اور اس میں ایک لمبی بیم ڈالی گئی ہے لیکن اس میں کہیں کوئی ستون نہیں تھا۔ پولیس حکام کے مطابق اس دھماکے سے چھت گری ہے جس سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
دھماکے کے بعد جب صحافیوں کو اس مقام پر جانے کی اجازت دی گئی تھو وہاں ملبہ پڑا تھا اور اس میں جو چھت کا سٹرکچر تھا وہ سریے اور سیمنٹ سے بنا ہوا تھا۔
وہاں موقع پر موجود لوگوں نے اس چھت کے گرنے پر بھی سوال اٹھائے لیکن پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ عمارت 50 سال پرانی ہے اور یہ کہ اس میں دھماکے سے جو ’شاک ویوز‘ یا لہریں نکلی ہیں اس سے عمارت دھڑام سے نیچے گر گئی ہے۔
بنیادی طور پر اس مسجد کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ پرانی تعمیر ہے جبکہ سنہ 2017 میں اس مسجد کو توسیع دے کر دوسرا حصہ تعمیر کیا گیا اور یہ مسجد لمبائی میں ہے۔
انسپکٹر جنرل پولیس معظم جاہ انصاری کے مطابق اس مسجد کے پہلے حصے میں کھڑکیاں نہیں ہیں اور نہ ہی کوئی دروازہ تھا، جس وجہ سے جب دھماکہ ہوا تو اس نکلنے والی شدید لہروں سے چھت گر گئی۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ اس کی بیم اتنی بھاری تھی کہ اسے مشینوں سے اٹھانا بھی مشکل تھا اور وہ ڈرل سے بھی نہیں توڑی جا سکتی تھی۔
امدادی کارکن کی والدہ اور اہلیہ پریشان
اس دھماکے کے بعد پورے شہر میں خوف تھا۔ یٰسین اللہ کی عام طور پر ڈیوٹی 2 بجے شروع ہوتی ہے لیکن وہ اکثر وقت سے پہلے دفتر پہنچ جاتے ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ ہیں اور حال ہی میں ان کی ترقی بھی ہوئی ہے لیکن اب بھی وہ میڈیکل ٹیکنیشن کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
یٰسین اللہ نے بتایا کہ انھیں جب دھماکے کی اطلاع ملی تو انھوں نے موبائل فون دفتر میں ہی چھوڑ دیا تھا تا کہ فون اٹینڈ کرنے سے کہیں کام میں خلل نہ آئے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک دن دوپہر سے دوسری صبح چھ بجے تک تو مسلسل کام کرتے رہے لیکن انھیں فون کا خیال نہیں آیا کیونکہ اس وقت ان کی توجہ ان زخمیوں کی جان بچانا تھا۔
’میں یہ کیسے کر سکتا ہوں کہ ایک انسان کو میری مدد کی ضرورت ہو وہ مجھے آوازیں دے رہا ہو اور میں اس کی مدد کو نہ جاؤں یہاں تو ریسکیو کارکنان کے علاوہ بھی لوگ مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔‘
یٰسین اللہ نے مزید بتایا کہ صبح آٹھ بجے جب انھوں نے آفس جا کر فون دیکھا تو بہت ساری مس کالز آئی ہوئی تھیں۔ میں نے گھر فون کیا تو والدہ نے سخت غصہ کیا کہ ہم ساری رات پریشان رہے ہیں اور تم نے فون بھی اٹینڈ نہیں کیا تو والدہ اور اہلیہ کو کہا کہ اس وقت ان زخمیوں کو میری ضرورت تھی اس لیے میں وہاں مصروف تھا۔
یٰسین اللہ کے پانچ بچے ہیں اور وہ پشاور کے مضافات میں رہتے ہیں۔