پرویز مشرف کی12 مئی 2007 کی تصویر میرے سینے میں خنجر کی طرح پیوست ہے، جس میں وہ کہہ رہے تھے آج ہم نے کراچی میں اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، ایک آمر نے ایک فسطائی تنظیم سے مل کر پورے کراچی کو خون میں ڈبو دیا،اور وہ اسے اپنی طاقت کا مظاہرہ کہہ رہا تھا۔ میری آنکھوں میں آنسوؤں سے ڈھکی ہوئی وہ سیاہ رات بھی ابھی تازہ ہے، جس میں لال مسجد سے نوجوان بچیوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، ان کے جلے ہوئے جسم اور قران کے جلے ہوئے اوراق ان کے بے بسی کی شہادت کا نوحہ سنا رہی ہیں، مجھے لیاقت بلوچ اور ملک نعیم کے ساتھ وہ سفر بھی یاد ہے، جس میں لیاقت بلوچ کو کسی نے اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر دی تھی اور لیاقت بلوچ کی زبان سے بے اختیار نکل گیا تھا کہ ’’ملک کی سیاست کے لیے یہ بہت برا ہوا ہے‘‘۔ اس کے اثرات بہت برے ہوں گے، اور بلوچستان میں امن ایک خواب ہوجائے گا۔ پرویز مشرف کے جرائم بہت گھنائونے اور بہت زیادہ ہیں۔پاکستان کو امریکا کے کہنے پر بدترین جنگ میں دھکیلنے سے لے کر بلوچستان سے لے کر وانا اور وزیرستان کو آگ اور خون کے سمندر میں دھکیلنے تک، عافیہ صدیقی جیسی پاکستان کی بیٹی اور بہت سے بے گناہوں کو ڈالروں میں فروخت کرنے تک، لال مسجد پر فاسفورس بموں سے حملہ کرنے سے لے کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک مجرم کی طرح ٹیلی ویژن پر بٹھا کر زبردستی بیان دلوانے تک جو مکے لہر ا کر طاقت کے نشے میں کہتا تھا کہ ’’میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں ہوں‘‘
جدیدیت ، روشن خیالی، اور ترقی کے نام پر پاکستان میں جو تباہی پرویز مشرف نے پھیری ہے، اس کا مداوا بہت مشکل ہے، ایک عشرہ تک ، وہ فرعون کے لہجے میں ، مسجد، ملا،مدرسہ، اور جہاد کے خلاف بولتے رہے، قوانین بناتے رہے، ہزاروں ، علماء، حفاظ قران، طلبہ ان کے دور میں شہید کیے گئے، اغوا کیے گئے، امریکیوں کے ہاتھوں فروخت کیے گئے، لاپتہ کیے گئے، ایک دور سیاہ تھا، جس میں روشنی کے لیے لوگ ترستے تھے۔
پرویز مشرف نے کشمیر کی آزادی کی تحریک کو سبوتاڑ کیا ، کارگل جنگ میں مشرف نے ہمیشہ جھوٹ بولا۔ انہوں نے ایک منتخب وزیر اعظم کو اندھیرے میں رکھا، فروری 1999 میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی پاکستان آئے اور دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ لاہور بھی طے ہوا۔ لیکن جب کارگل کے بارے میں بھارتی حکام کو خبر ہوئی تو انہوں نے اسے پاکستان کی جانب سے پیٹھ میں چھرا گھونپے جانے کے مترادف قرار دیا۔ کارگل جنگ نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا اور کشمیریوں کی تحریکِ آزادی کو سفارتی سطح پر ایک ناجائز کاز بنا دیا۔ 5 فروری کو کشمیر کی آزادی سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے، پاکستانیوں کو اس کا ادراک ہونا چاہیے کہ کشمیر کے مسئلہ پر غداری کس نے کی ہے؟
پاکستان میں جمہوری حکومتوں کا گلا گھونٹنے کا اقدام ، تواتر سے ہوتا رہا ہے، ایوب خان، یحی خان، ضیاء الحق کے بعد پرویز مشرف نے صرف ذاتی مخاصمت کی بنیاد پر 12 اکتوبر 1999کو نواز شریف کی آئینی حکومت کو ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور نواز شریف کو پابندِ سلاسل کر دیا۔ 9\11کے واقعے کے بعد امریکا کے سامنے جنرل پرویز مشرف نے جس طرح گھٹنے ٹیک کر نہ صرف امریکی جنگ میں پاکستانی قوم کو جھونکنے کا شرمناک فیصلہ کیا اور پاکستانی ہوائی اڈے امریکی فوج کے حوالے کر دیے۔ بلکہ امریکا کی تمام شرائط مان کر پاکستان کو ایک دلدل میں دھکیل دیا، جس سے ہم آج تک نہیں نکل پائے۔
جنرل پرویز مشرف کی کتاب
IN THE LINE OF FIREکے انگریزی ایڈیشن میں انہوں نے یہ اعتراف کیا کہ 2001 میں شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کو دہشت گردی کے شبے میں امریکا کے حوالے کیا۔ یہ انکشافات کتاب کے اردو ترجمے سے حذف کر دیے گئے ۔ لیکن انگریزی ایڈیشن میں ان کا یہ اعتراف موجود ہے، ملک کی تاریخ کا ایک سیاہ باب مشرف ہی کے دور میں پاکستان میں جبری گمشدگیوں کی صورت میں شروع ہوا، جو آج بھی ہمارے ملک میں ناانصافی اور ظلم کا کلنک کا ٹیکہ بن کر ہمارے ماتھے پر سجا ہوا ہے۔ 2002 میں انتخابی دھاندلیاں، ایم کیو ایک کے مردہ وجود کو حیات بخشنے، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی میں نقیب لگانے ، مسلم لیگ ق کو فتحیاب کرانے، پیپلز پارٹی پیٹریاٹ نام کا فارورڈ بلاک بنانے اور ظفر اللہ خان جمالی کو محض ایک ووٹ کی برتری سے وزیر اعظم پاکستان بنوانے کا کارنامہ انجام دیا گیا۔ فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کا بدترین مظاہرہ ہوا، جس کے ذریعے فوجی آمر کے لیے عوامی حمایت کا ڈھونگ رچانے کا سامان کیا۔ قبائلی علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان مسلط کرنے اور اس کے خلاف آپریشن میں جو تباہی اس دورمیں ہوئی ہم آج تک اس سے بھی نہیں نکل پائے۔
جنرل پرویز مشرف ہی کے دور میں امریکا کو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون جیسے ظالمانہ اور غیر انسانی ہتھیار کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ جس میں اس ٹیکنالوجی کے ذریعے ہزاروں بے گناہ قبائلی شہریوں کی جانیں گئیں اور ہزاروں کی تعداد میں بوڑھے، بچے اور خواتین و حضرات اپاہج بھی ہوئے۔
مشرف نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار چودھری کو ایک نادر شاہی حکم کے ذریعے عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا۔
انہوں نے یہ حکم ماننے سے انکار کیا تو ان کے خلاف ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل بھجوا دیا گیا۔ اسی کیس کی پہلی پیشی کے دن افتخار چودھری کو نہ صرف بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا گیا بلکہ وکلا پر ڈنڈے بھی برسائے۔پرویز مشرف نے این آر او دینے کا ریکارڈ قائم کیا، بینظیر بھٹو سے مذاکرات کے بعد 12 اکتوبر 1999 سے قبل بنائے جانے والے جرائم سے متعلق مقدمات کو ختم کیا گیا۔ انہوں نے پیپلز پارٹی، بیوروکریسی اور اپنی اتحادی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف تمام مقدمات ختم کر دیئے بلکہ راتوں رات ان مقدمات کا نام و نشان بھی مٹا دیا گیا۔ مشرف بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام سے بھی بری نہیں ہیں، 27 دسمبر 2007 کو بے نظیربھٹو کو راولپنڈی میں شہیدکردیا گیا۔ ان کی جائے شہادت کو دھو دیا گیا جس سے موقع واردات سے تمام ثبوت مٹ گئے۔ گو مشرف کو بینظیر قتل مقدمے میں بری کر دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم کو وہ سیکورٹی نہیں دی جو کہ ان کا حق تھا اور بالآخر ان کو قتل کر دیا گیا۔
پشاور ہائی کورٹ کی ایک خصوصی عدالت نے ملک میں ایمرجنسی لگانے پر پرویز مشرف کو 2007 میںسزائے موت سنائی اور تفصیلی فیصلے میں سابق آمر کی لاش ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ دے کر عدلیہ کی تاریخ میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جناب وقار سیٹھ نے اپنا نام ہمیشہ کے لیے امر کرلیا۔لیکن کیا اس ملک میں یہ کھلواڑ کرنے والے اکیلے مشرف تھے؟ کیا ہمارے سیاست دان ، عدلیہ سے تعلق رکھنے والے معززین، اشرافیہ، ترقی پسند، لبرل، جرنیل، ملک کی سلامتی اور تحفظ کے ادارے ان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ کیا یہ کھیل اب ختم ہوگیا ہے؟ تحریک طالبان پاکستان نے مشرف کی موت پر جو بیان جاری کیا ہے۔اس کی آخری سطریں سب کے لیے لمحہ فکر ہیں۔ مشرف سزا سے بچنے کے لیے بھاگتے رہے، لیکن اب وہ اپنے جرائم کے ساتھ اس سب سے بڑی عدالت کا سامنا کریں گے۔ جہاں ان کی حمایت کرنے والا کوئی نہ ہوگا؟ ان کے جرائم کی گواہی خود ان کے اعضا دیں گے اور ان کے سفارش کے لیے اس قہار و جبار ہستی کے سامنے اس کے اذن کے بغیر کسی کو دم مارنے کی اجازت نہ ہوگی۔