- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، دلی
انڈیا کی ریاست آسام میں پولیس نے ایسے ڈھائی ہزار مردوں اور ان کے رشتے داروں کو گرفتار کر لیا ہے جنھوں نے گزشتہ دو برس کے دوران 18 برس سے کم عمر لڑکیوں سے شادی کی ہے۔
گرفتار کیے گئے افراد میں نابالغ لڑکیوں کے شوہر، ان کے رشتے دار، شادی کرانے والے قاضی، پنڈت اور ان کے معاونین شامل ہیں۔ ریاست کے وزیر اعلی نے کہا ہے کہ نابالغ بچوں اور بچیوں کی شادی کے خلاف یہ مہم جاری رہے گی۔
انڈیا میں شادی کے لیے قانونی طور پر لڑکی کی عمر 18 اور لڑکے کی 21 برس ہونا لازمی ہے۔ ریاستی حکومت نے دو برس کے دوران ہونے والی شادیوں اور حاملہ عورتوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کے بعد یہ مہم شروع کی ہے۔
اطلاعت کے مطابق اس سلسلے میں 4 ہزار ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ پولیس نے گزشتہ جمعہ سے پیر کی دوپہر تک ڈھائی ہزار افراد کو گرفتار کیا تھا ۔ اس مہم میں لڑکیوں کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے۔ کئی مقامات پر گرفتار کیے گئے مردوں کی بیویوں اور رشتے داروں نے پولیس سٹیشن کے سامنے مظاہرے کیے ہیں۔
ڈھوبری ضلع کے ایک رہائشی شاہ عالم بیاپاری نے بتایا کہ پولیس نے ان کی بھتیجی کی شادی کے سلسلے میں ان کے بھتیجے اورلڑکی کے بھائی حفیظ الرحمان کو گرفتار کر لیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی بھتیجی کی شادی دسمبر 2018 میں ہوئی تھی۔ ’اس وقت اس کی عمر 18 برس سے زیادہ ہو چکی تھی۔ میں نے اس کا پرائمری سکول سرٹیفکیٹ پولیس کو دکھایا لیکن پولیس نے اسے نہیں مانا ہے۔ ابھی تک میرے بھتیجے کو پولیس نے نہیں چھوڑا ہے۔‘
بیشتر معاملات میں شوہروں کو سنہ 2006 کے نابالغ بچوں کی شادی روکنے کے قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔ اس کے تحت دو سے تین برس تک کی قید ہو سکتی ہے۔ لیکن جن لڑکوں کی شادی 14 برس سے کم عمر کی لڑکی سے ہوئی ہے انھیں تعزیرات ہند کے انتہائی سخت قانون پاکسو کے تحت گرفتار کیا گیا ہے جس کے تحت 10 برس تک کی قید ہو سکتی ہے۔
آسام میں بچوں کی کم عمری میں شادی ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس طرح کی شادیاں عمومآ معاشی طور پر پسماندہ طبقات میں زیادہ ہوتی ہیں۔ کم عمری میں شادی کے سبب کم عمر لڑکیا ں اکثر 20 برس سے قبل ہی ماں بن جاتی ہیں جن کے سبب صحت کے پیچیدہ مسا ئل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ریاستی حکومت نے آسام میں سنہ 2022 کے دوران سبھی اضلاع میں حاملہ خواتین کے اعداد شمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق جنوری سے دسبمر 2022 تک ریاست میں 6 لاکھ 20 ہزار خواتین حاملہ ہوئیں۔ ان میں 1 لاکھ 4 ہزار خواتین یعنی تقریبآ 17 فیصد خواتین ایسی تھیں جن کی عمر 19 برس سے کم تھی ۔
ریاست کے وزیر اعلی ہیمنت بسوا شرما نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نابالغ بچوں کی شادی روکنے کا قانون پارلیمنٹ میں 2006 میں منظور ہوا لیکن اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ’اب میں اسے اپنی حکومت کی ایک اہم ترجیح کے طور پرنافذ کر رہا ہو ں۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ پانچ برس میں ہماری ریاست نابالغ بچوں کی شادی کی سماجی برائی سے نجات پا جائے۔‘
جن ڈھائی ہزار افراد کو گرفتار کیا ہے ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔ ہیمنت بسوا شرما نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک غیر جانبدار اور سیکولر ایکشن ہے۔ اس میں کسی مخصوص برادری کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔‘ انھوں نے اتوار کو ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا کہ اب تک جنھیں گرفتار کیا گیا ہے ان میں 58 فی صد مسلمان اور 42 فیصد ہندو ہیں۔
ریاست کے ڈھوبری ضلع ان علاقوں میں شامل ہے جہاں زیادہ گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ ضلع کی اعلی پولیس افسر دیپتی مالی نے کہا ’ہم جو بھی کر رہے ہیں وہ قانون کے مطابق کر رہے ہیں۔ اس میں کسی کے ساتھ کوئی کوئی تفریق نہیں برتی جا رہی ہے۔ جو بھی کارروائی ہو گی وہ قانون کے تحت ہو گی۔‘
آسام میں حزب اختلاف کانگریس کے ایک رکنِ اسمبلی عبد الباطن کھندیکر کا کہنا تھا کہ نابالغ بچوں کی شادیاں ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس پر قابو پانے کے اقدامات کی سبھی حمایت کرتے ہیں۔
’تاہم اسے گزرے ہوئے برسوں میں ہونے والی شادیوں سے نہیں شروع کرنا چاہیے۔ بہت سے ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے یہاں نو زائیدہ بچے ہیں، کئی ایسے لوگ گرفتار کیے گئے ہیں جو شادی کے وقت بالغ تھے۔ جنھوں نے دو برس پہلے شادی کی انھیں گرفتار کیے جانے سے معاشرے میں افراتفری مچ گئی ہے۔‘
عبد الباطن کھندیکر نے کہا بہتر ہوتا کہ اسے مستقبل میں ہونے والی شادیوں پر نافذ کیا جاتا۔ انھوں نے بتایا کہ بعض ایسے لڑکوں کو بھی گرفتار کیا گیا جن کی شادی بالغ لڑکی سے ہوئی تھی۔
ریاست کے سرکردہ وکیل اور حقوق انسانی کے کارکن امن ودود کا کہنا ہے کہ کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کیے جانے چاہئیں لیکن اگر بی جے پی کی حکومت اس کے بارے میں سنجیدہ تھی تو اسے یہ قدم چھ برس قبل اٹھانا چاہیے تھا جب وہ اقتدار میں آئی تھی۔