ادب اور صحافت کا معتبر نام انور سن رائے جب کہیں کہ ان کی ترجمہ کردہ کتاب کے کچھ اوراق پڑھ کر ممکنہ غلطیاں درست کرنی ہیں، تو کسے انکار ہوسکتا ہے؟
ایک تو ایسے مشفق اور عجز سے مہکتے انسان کی بات رد کرنا ممکن نہیں، پھر یہ خیال کہ جس کتاب کا ترجمہ انور سن رائے نے کیا ہے وہ کس پائے کی ہوگی! پھر وہ اوراق میرے ہاتھوں میں تھے اور میں ان کی سطروں میں ڈوب چکا تھا۔
یہ اس کتاب کے درمیانی حصے کے کوئی 50 صفحات تھے، گویا،’نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم‘۔ ان چند پَنّوں میں دریا کی روانی سے بہتی کہانی کا بس ایک چھوٹا سا ٹکڑا تھا، سو پڑھتے ہوئے ’جو رہی سو بے خبری رہی‘ لیکن اچھوتا پیرایہ اظہار، لفظوں کی چونکاتی بُنت اور حیران کرتے مناظر نے ایسا گرفت میں لیا کہ صفحے ختم ہونے پر وہ تشنگی شروع ہوئی کہ دو گھونٹ پلا کر جام چھین لیے جانے پر بھی تشنہ لبوں پر نہ گزرتی ہوگی۔ آخر جب یہ صفحے اپنے آغاز اور انجام سمیت ’ریت سمادھی‘ کے عنوان کے ساتھ کتابی صورت میں سامنے آئے تو چین آیا اور پہلی فرصت ملتے ہی پیاس بجھانے لگا۔
انوکھے اسلوب میں لکھا گیا یہ ناول بھارت کی ادیبہ گیتانجلی شری کی تخلیق ہے۔ ہندی میں لکھے گئے اس ناول کے انگریزی ترجمے ’Tomb of sand‘ کو 2022ء کا بُکر پرائز دیا گیا ہے۔
اردو ادب کو ’ذلتوں کے اسیر‘ اور ’چیخ‘ جیسے ناول دینے والے انور سن رائے نے ’ریت سمادھی‘ کو اردو کا چولا پہنایا ہے۔ انور سن رائے صحافت کی سنگلاخ زمینوں پر سفر کرنے کے ساتھ شاعری، نثرنگاری اور ترجمے کی صورت میں اردو شعر و ادب کو اپنے لفظوں سے مہکائے ہوئے ہیں۔
بُکرپرائز حاصل کرنے والے ہندوستانی زبان کے اس پہلے ناول کی خالق گیتانجلی شری بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر مین پوری سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے اب تک 5 ناول اور متعدد افسانے سامنے آچکے ہیں، جس کے ساتھ ان کی دیگر تصانیف بھی شائع ہوئی ہیں۔
8 سال کی طویل ذہنی مشقت کے بعد ناول کی صورت پانے والا ’ریت سمادھی‘ بڑھاپا جیتی ایک 80 سالہ عورت کی کہانی ہے۔ ایک ایسی کتھا جس کے انگ انگ سے کہانیاں پھوٹ رہی ہیں اور جس میں سانس لیتے زندگی گزارتے انسانوں کے ساتھ جانور اور بے جان اشیا بھی جیتے جاگتے کردار کی صورت میں سامنے آتی ہیں، جن میں سے کچھ کا تذکرہ مصنفہ نے کیا ہے، ’اس کہانی میں یہ سبھی کردار ہیں، چیونٹی، ہاتھی، رحم دلی، دروازہ، ماں، چھڑی، گٹھری، بڑے، بیٹی، ریبوک جو بہو پہنتی تھی، اور باقی، جن کا ذکر آگے چل کر تبھی ہوگا جب ہوگا‘۔ یہاں تک کہ دھوپ بھی ایک کردار کی صورت نمودار ہوتی ہے۔ بھید بھری روزی ہو، بیٹی، بہو، بڑے، کوّے اور دوسرے کردار، ہر ایک کسی قصے میں لپٹا ہے، اور یہ سارے قصے ’ماں‘ کی کہانی میں آملتے ہیں۔
ناول کا آغاز ’کہانی خود کو بیان کرے گی‘ کی سطر سے ہوتا ہے، اور پھر واقعی کہیں چلبلی، کہیں اداس ہوتی اور کبھی شاعر، کبھی فلسفی کا روپ دھارتی کہانی بڑی روانی سے خود کو بیان کرتی چلی جاتی ہے، لیکن اس روانی میں اتنے بَل ہیں کہ چند لفظوں اور ایک سطر سے بھی سرسری گزر جانا قاری کو الجھا سکتا ہے۔ یعنی جس طرح عورت کو پورا مرد درکار ہوتا ہے اسی طرح یہ ناول قاری کی ساری کی ساری توجہ طلب کرتا ہے۔
اس کہانی کا محور ’ماں‘ ہے، لیکن اس سے جُڑا ہر کردار جب سامنے آتا ہے تو وہی مرکز نگاہ بن جاتا ہے۔ ناول میں انسانی تعلقات، باہمی رشتوں اور انسان اور زندگی اور فرد سے کائنات کے تعلق کی کہانی ایک گھر اور کنبے کے اندھیرے اجالے میں لپیٹ کر بڑی چابک دستی سے بیان کی گئی ہے۔ ایک گھر کی سیدھی سادی سی کتھا اپنا آدھا سفر طے کرنے کے بعد یکایک روپ بدلتی ہے اور ہندوستان کے بٹوارے اور زمین پر کھنچتی لکیر کے ساتھ کٹتے بٹتے رشتے ناتے اور وجود نمودار ہونے لگتے ہیں۔
یہیں منٹو کا شاہکار کردار بشن سنگھ عرف ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ اپنے سارے پاگل پن کے ساتھ اچانک جی اٹھتا ہے۔ کہانی یہ کروٹ اس وقت لیتی ہے جب بڑھاپے کی بھی آخری سرحد پر کھڑی امّاں سیما پار پاکستان جانے پر مصر ہوجاتی ہیں اور پھر بیٹی کو لیے پاکستان پہنچ ہی جاتی ہیں، جہاں ایک روز یہ ماں بیٹی کھوجاتی ہیں اور ان کا کھونا سرکاری اہلکاروں کے لیے دردِسر بن جاتا ہے۔
ناول کے اس حصے میں گیتانجلی شری نے لاہور سے تھر اور تھر سے خیبر کے پہاڑوں تک کے مناظر اور ثقافتی پہلوؤں کو تمام تر باریکیوں سمیت اس مہارت سے بیان کیا ہے کہ لگتا ہے وہ برسوں پاکستان کا چپہ چپہ چھانتی رہی ہیں۔
آج کے بھارت میں مذہبی شدت پسندی اس طرح کُھل کر کھیل رہی ہے کہ اس نے سیاست کا محاذ سر کرنے کے بعد ثقافت کے میدان کو بھی اپنا اکھاڑا بنا لیا ہے۔ سو کبھی کوئی فلم انتہاپسندوں کا نشانہ بنتی ہے تو کبھی ہندوتوا کا ہدف کوئی پینٹنگ یا کتاب قرار پاتی ہے۔ ’ریت سمادھی‘ پر بھی حملہ ہوچکا ہے۔ آگرہ میں اس کتاب کی تقریب رونمائی اس شکایت کے بعد منعقد ہونے سے روک دی گئی کہ اس ناول میں ’بھگوان شیو اور پاروتی کی قابلِ اعتراض عکاسی کی گئی ہے، جس سے ہندوؤں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں‘۔
’ریت سمادھی‘ کی پڑھنے والے کو خود سے جوڑے رکھنے والی کہانی اپنی جگہ، لیکن اس کا اہم ترین پہلو وہ اچھوتا بیانیہ اور انوکھی زبان ہے جو اس ناول کو منفرد کردیتی ہے۔ بقول انور سن رائے ’گیتانجلی شری کا ناول اپنے اسلوب اور لسانی ساخت کے اعتبار سے تاریخی اہمیت کا حامل ہوگا کیونکہ یہ اردو کی لسانی تشکیل کی نثری تجسیم کرتا ہے‘۔
فکشن کے پرستاروں، خصوصاً زبان کے تجربوں سے لطف اندوز ہونے والوں کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہیے۔ 511 صفحات پر پھیلے اس ناول کو ’فہد محمد برائے عکس، لاہور‘ نے شائع کیا ہے۔ کتاب پر قیمت درج نہیں، جو سہواً ہوا ہے، انور سن رائے صاحب نے معلوم کرنے پر بتایا کہ کتاب کی قیمت 1500 روپے ہے۔