پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانے عرصے اور مابعد دنیا جس طرح اقتصادی کساد بازاری کا شکار ہوئی اور ضروریات زندگی کی قیمتوں میں روز افزوں اضافے نے انتہائی خطرناک صورتحال کو جنم دیا اور بعض ممالک میں وہاں کی کرنسی کی صورتحال اس قدر نازک ہو گئی تھی کہ لوگ بوریوں میں کرنسی نوٹ ڈال کر بازار سے بہ مشکل ایک دو کلو اشیائے خوراک ہی حاصل کر پاتے، وطن عزیز کے اندر اگرچہ اللہ کی مہربانی سے حالات اس حد تک تو نہیں بگڑے مگر ڈالر کی قیمت میں ایک ہی روزاچھے خاصے اضافے اور کھلی مارکیٹ میں آئی ایم ایف کی مبینہ ہدایات پر اسے اپنی قدر خود مقرر کرنے کے نتیجے میں عوام کے اندر ایک خوف و ہراس کی کیفیت کا پیدا ہونا اتنا بھی بے معنی نہیں، بعض اخباری اطلاعات کے مطابق پٹرول پمپوں پر پٹرول کی ”قلت” کے خوف اور غلہ منڈیوں میں چڑھتی قیمتوں کے نتیجے میں عوام کا ہجوم امڈنے جیسی کیفیت سے مصنوعی ہی سہی مگر”کساد بازاری” کے جنم لینے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا، حالانکہ حقیقت ایسی نہیں اور ملک میں اجناس کی کوئی قلت نہیں ہے لیکن بعض لوگوں کو اس خوف نے کہ کہیں واقعی قحط کی سی صورتحال پیدا ہو جائے، اس بات پر مجبور کر رکھا ہے کہ وہ اشیائے ضروریہ کی زیادہ سے زیادہ مقدار جلد از جلد خرید کر ذخیرہ کر لیں تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں ان کو مشکل پیش نہ آئے، یہ صورتحال جہاں عارضی ہے اور جلد ہی اس کیفیت سے لوگ باہر نکل آئیں گے وہاں حکومت کو بھی اس کا نوٹس لے کر عوام کو یہ باور کرانا چاہئے کہ ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی کوئی کمی ہے نہ ہی کسی قلت کا خدشہ ہے، دراصل ایسے کسی خوف کا شکار ہونے والے اگرچہ محدود تعداد میں ہوتے ہیں تاہم ان کی ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے عام غریب لوگ شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس تو روز مرہ کی خریداری کیلئے بھی رقم اس وقت ہوتی ہے جب وہ محنت مزدوری سے اسے حاصل کر پاتے ہیں، اور حالیہ ملکی معاشی صورتحال نے تو عام دیہاڑی داروں اور انتہائی کم معاوضوں پر کام کرنے والوں سے روزگار بھی چھین لیا ہے، کارخانوں کی بندش اور دیگر متعلقہ شعبوں میں کام ٹھپ ہو جانے کی وجہ سے وہاں کام کرنے والے محنت کش بے روزگار ہوتے جا رہے ہیں، ایسی صورتحال میں انہیں نانِ شبینہ کا اہتمام ایک مسئلہ بن رہا ہے، ایسی حالت میں اگر محدود تعداد میں صاحب ثروت لوگ اشیائے ضرورت کو بھی کسی انجانے خوف کی وجہ سے گھروں میں سٹاک کرنا شروع کر دیں تو جن کی آمدنی انتہائی محدود اور نہ ہونے کے برابر ہے وہ اس مشکل کا مقابلہ کیسے کریں گے،سابق وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنے تازہ بیان میں جن خدشات کا ذکر کیا ہے اور جس اقتصادی صورتحال کی نشاندہی کی ہے اس سے ملکی معیشت کی صورتحال بہت حد تک واضح ہو رہی ہے، انہوں نے مہنگائی کا طوفان بد تمیزی آنے کی پیشگوئی کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے ساتھ جس ممکنہ ڈیل ہونے کے بعد کی مشکل صورتحال کا نقشہ کھینچا ہے اور خود حکومت کے حلقے بھی اپنے بیانات میں اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں اس کے بعد ملک میں مہنگائی کے مزید بڑھنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا، یاد رہے کہ آئی ایم ایف نے تین ہزار ارب روپے کے ٹیکس لگانے کی بات کی ہے اور اس حوالے سے ایک ٹیم نے آ کر حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیکر ہی نئے قرضے کی منظوری دینی ہے، اور ظاہر ہے اتنے زیادہ ٹیکس عوام ہی کی جیبوں سے نکالنے کی حکمت عملی پر حکومت مجبور ہوگی، اگرچہ بعض اقتصادی ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک بار آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہو جائے تو دیگر ممالک بھی اقتصادی امداد اور قرضے مہیا کر کے ہمیں ان مشکل حالات سے نکلنے میں مددگار ہو سکیں گے، تاہم اس دوران عوام کی کیا حالت بنے گی وہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کچھ لوگ صرف اس خوف سے کہ کہیں اشیائے ضروریہ کی قلت پیدا نہ ہو جائے یا پھر ان کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو جائے ان کی ذخیرہ اندوزی شروع کردیں تو یہ ایک نا مناسب رویہ ہے، جس سے حکومت کو نمٹنے کیلئے ضروری اقدام اٹھانے چاہئیں، کیونکہ اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو جس طرح دوسری جنگ عظیم کے دوران اور بعد میں کئی دہائیوں تک متحدہ ہندوستان اور آزادی کے بعد بھی راشن بندی کے عمل سے عوام کو گزرنا پڑا، اس لئے حکومت اس ضمن میں عوام کا خوف دور کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کیلئے ضروری اقدام اٹھائے ورنہ خدانخواستہ”کساد بازاری” حقیقی روپ بھی دھار سکتی ہے۔